Zaicha : Kundli in Urdu
Your Janam Kundli or birh-chart is a cosmic map of our solar system at the time of your birth. According to astrology, the positions of different planets in sky at the time of birth impacts us throughout our lives, it carves our personalities, our inclinations and our nature. Therefore, Janam Kundali is pivotal in order to have an in-depth understanding of our lives to improve our lives and to tread the path of peace, success and prosperity.
Horoscope What is its origin in terms of date of birth? According to the religion of Islam and according to the Holy Qur'an
زائچہ۔ تاریخ پیدائش کے حساب سےاسکی اصلیت کیا ہے؟ دین اسلام کے مطابق اور قرآن شریف کے مطابق
Scientific research has shown that the universe was created about twenty billion years ago. It took about three billion years for the universe to become what it is today. Regarding the infinity of the universe, science has been claiming the fact that there are more than one hundred billion galaxies in the universe and each galaxy has more than one billion stars and planets. Some are just the size of water bubbles, while others are so large that each of them can hold a hundred suns. There are many such stars and planets in the universe in other galaxies beyond the solar system of the planet. Some experts have come to the conclusion that the number of galaxies in the universe is impossible and that the number of galaxies in this way cannot be estimated.
سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کائنات کو تخلیق ہوئے تقریباً بیس ارب سال ہو گئے ہیں۔ کائنات کو موجودہ صورت کی کائنات بننے میں تقریباً تین ارب سال صرف ہوئے۔ کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں سائنس اس حقیقت کا دعویٰ کرتی آئی ہے کہ کائنات میں تقریباً ایک سو ارب سے زیادہ کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں ایک ارب سے زیادہ ستارے و سیارے ہیں۔ بعض صرف پانی کے بلبلے کے برابر ہیں جبکہ بعض اتنے بڑے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں سو سورج سما سکتے ہیں۔ کائنات میں کرہ ارض کے شمسی نظام سے پرے دوسری کہکشاؤں میں ایسے کئی ستارے و سیارے موجود ہیں۔ بعض ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات میں کہکشاؤں کا شمار ناممکن ہے اور اس طرح کہکشاؤں میں کی تعداد کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
Human life is always about wanting something to happen or not. All human thoughts and anxieties revolve around this desire. Man, who is an eternal slave to needs and feelings, is always preoccupied with how to fulfill his particular desire. Man’s beliefs and doubts have arisen from this concern of man. There is fear hidden in doubt, while in belief there is longing to reduce or alleviate this fear or apprehension.
If we look at the history of human religion and morality, we come across some facts that are surprising to modern scientific theories. One of them is the belief that if a person does a certain thing, he will get certain results. As man’s observations expanded, so did his intellectual activities. Various sciences have played a role in the mental and intellectual development of man.
انسانی زندگی ہمیشہ کسی کام کے ہونے اور نہ ہونے کی خواہش میں گزر جاتی ہے۔ انسا ن کے سارے تفکرات و اندیشے اسی خواہش کے اردگرد گھومتے ہیں۔ انسان جو ضروریات و احساسات کا ازلی و ابدی غلام ہے ہمیشہ سے اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ اپنی کسی مخصوص خواہش کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ انسان کی اس فکر مندی سے انسان کے اعتقادات اور شبہات نے جنم لیا ہے۔ شبہ کے اندر خوف و اندیشہ چھپا ہے جبکہ اعتقاد میں اس خوف یا اندیشے کو کم کرنے یا اس کے کم ہو جانے کی حسرت پائی جاتی ہے۔ اگر انسان کے مذہب اور اخلاق کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو کچھ ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ جن پر جدید سائنسی نظریات کو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک حقیقت انسان کا وہ یقین ہے کہ اگر وہ کوئی مخصوص عمل کرے گا تو اس کے مخصوص نتائج برآمد ہوں گے۔ جوں جوں انسان کے مشاہدات میں وسعت پیدا ہوتی گئی توں توں اس کی فکری سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انسان کے ذہنی و فکری عروج میں مختلف علوم نے اپنا کردار ادا کیا۔
In the Enlightenment of Islam, where Muslims excelled in other sciences and arts, they also made a name for themselves in the study of astronomy, and non-Muslim historians had to admit that the first observatory on astrology was in Europe. Founded by Muslims. He made a list of all the planets and named them that have not changed. Their opinions and conclusions are so accurate that contemporary experts and mathematicians also benefit from their conclusions from time to time.
If you look at the pages of history, historians have given different views about the beginning of the world. First of all, the artists, while expressing their opinion, say that the heavens and the earth were intertwined and after the flames of fire kept coming out of the place of the sun for thousands of years, the Almighty divided it. We agree with this opinion because the Almighty says in the Holy Quran.
Translation: “Did not those who disbelieve see that the heavens and the earth were joined together, so We separated them?”
اسلام کے روشن دور میں مسلمانوں نے جہاں دیگر علوم و فنون میں کمال حاصل کیا وہاں علم النجوم کی تحقیقات میں بھی انہوں نے اپنے لئے ایک امتیازی مقام پیدا کیا اور غیرمسلم مؤرّخوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ علم نجوم کے متعلق پہلی رصدگاہ یورپ میں مسلمانوں نے قائم کی۔ انہوں نے تمام سیاروں کی فہرست بنائی اور ان کے نام رکھے جو اب تک تبدیل نہیں ہوئے۔ ان کی آراء اور نتائج اس قدر صحیح ہیں کہ زمانہ حال کے ماہرین اور فنِ ریاضی بھی ان کے نتائج سے وقتاً فوقتاً مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو آغاز دنیا کے متعلق مؤرخین نے مختلف آراء پیش کیں۔ سب سے پہلے ماہرین فن اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہزارہا برس تک مقام شمس سے آگ کے شعلے نکلتے رہنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس کی تقسیم فرمائی۔ اس رائے سے ہم اتفاق کرتے ہیں کیونکہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ:۔’’کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے پس ہم نے ان دونوں کو جدا کیا۔‘‘
When the Almighty separated the earth and the sky by His command, He placed the planet Shams among all these planets and the three planets on the upper side of the planet, namely Saturn, Jupiter, Mars and the three planets on the lower side, namely Venus and Mercury. ‘Established the moon. Astrologers have declared the planets above the Sun above the planets above and the ones below it to be successful, and all these planets have their own order of good and bad movements. Artists have attributed these planets to days and have declared each planet to be the owner of one day and this decision proves to be absolutely correct. Because the Almighty has said in the Holy Qur’an:
Translation: “We created the heavens and the earth in six days.”
جب اﷲتعالیٰ نے زمین اور آسمان کو اپنے حکم سے جدا کیا تو سیارہ شمس کو ان سب سیاروں کے درمیان قائم کیا اور سیارہ شمس کے اوپر کی جانب تین سیاروں یعنی زحل‘ مشتری‘ مریخ کو اور اس کے نچلی جانب تین سیاروں یعنی زہرہ‘ عطارد‘ قمر کو قائم کیا۔ عالمان نجوم نے سیارہ شمس کے اوپر کی جانب سیاروں کو علوی اور اس کی نچلی جانب جو سیارے واقع ہیں انہیں سفل قرار دیا اور یہ تمام سیارے اپنی اپنی حرکاتِ سعدیت و نحوست کا علیحدہ علیحدہ حکم رکھتے ہیں۔ ماہرین فن نے ان سیاروں کو دنوں سے منسوب کیا ہے اور یہ ہر سیارہ کو ایک دن کا مالک قرار دیا ہے اور یہ فیصلہ بالکل درست ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
ترجمہ:۔ ’’ہم نے بنایا زمین و آسمان کو چھہ دنوں میں۔‘‘
And in the same way, each day has its own glory. In Arabic, astrology literally means stars. Najm is called Tara and Najum is a plural word. There are two types of wires. One is the stars that stand in one place and the other is the ones that travel. They are called moving stars or planets. The Almighty has set the stars for heavenly adornment and the number of days and nights, the number of weeks, months and years, the change of seasons and the times of prayers are known from the movements of the planets. They are also mentioned in the Holy Qur’an.
Translation: “Enters the night in the middle of the day and enters the day in the middle of the night. The sun and the moon” each move for an appointed time. “
اور اسی طرح ہر دن علیحدہ علیحدہ شان رکھتا ہے۔ عربی میں نجوم کے لفظی معنی تاروں کے ہیں۔ نجم تارا کو کہتے ہیں اور نجوم جمع کا لفظ ہے۔ ان تاروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ تارے ہیں جو ایک ہی جگہ کھڑے ہوئے ہوں اور دوسری قسم وہ ہے جو سیر کرتے ہیں۔ ان کو چلتے ہوئے تارے یا سیارے کہتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ستاروں کو آسمانی زینت کے لئے قائم کیا ہوا ہے اور سیارگان کی چال سے دن رات کا شمار ہفتوں‘ مہینوں اور سالوں کی گنتی‘ تبدیلی موسم اور نماز کے اوقات معلوم کئے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر بھی قرآن پاک میں آتا ہے۔
ترجمہ:۔ ’’داخل کرتا ہے رات کو بیچ دن کے اور داخل کرتا ہے دن کو بیچ رات کے مسخر کیا ہے‘ سورج اور چاند کو‘ ہر ایک مقرر وقت تک چلتے ہیں۔‘‘
By the way, the discussion of astrology started in Egypt, Babylon, Nineveh, and first in Greece, Pythagoras and his disciples formed the whole concept of the heavens and showed that the planets and stars are connected in rings and these rings are connected to each other. Dizzy His theory was later confirmed by the famous philosopher Aristotle. In addition, the second century BC, the great astronomer Sparks, developed the theory of the heavens, discovered the conditions of the planets and compiled a list of the movements of the planets. Similarly, when the city of Baghdad was founded, in 762, the Abbasid Caliph Mansur revived astrology, among other sciences. Two astrologers were among the founders of the new city at the time.
ویسے علم نجوم کا چرچا مصر‘ بابل‘ نینوا میں شروع ہوا اور سب سے پہلے یونان میں فیثاغورت اور اس کے شاگردوں نے افلاک کا پورا تصور قائم کیا اور یہ ظاہر کیا کہ سیارے اور ستارے کڑوں میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ کڑے ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان کے بعد ان کے نظریئے کی مشہور فلسفی ارسطو نے بھی تصدیق کی۔ علاوہ ازیں دوسری صدی قبل مسیح علوم فلکیات کا بہت بڑا عالم ہسپارکس نے افلاک کے نظریئے کو ترقی دے کر سیارگان کے حالات کا پتہ چلایا اور سیارگان کی حرکات وغیرہ کی فہرست مرتب کی۔ اسی طرح شہر بغداد کی بنیاد رکھی تو 762ء میں عباسی خلیفہ منصور نے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم نجوم کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس وقت اس نئے شہر کی بنیاد قائم کرنے والوں میں دو نجومی بھی شامل تھے۔
One belonged to Iran and the other belonged to India, whose name was Manak or Manka. Arriving in Baghdad, he attended the court of Caliph Mansour and presented a book on astrology. Whose name was “Sunna Hind”. Similarly, during the reign of Caliph Harun al-Rashid, the book Al-Muhabbati was translated and the series of books continued. In 1030, during the reign of Sultan Mahmud of Ghazni, Abu Rihan al-Biruni, one of the most famous scientists and astronomers of the time, wrote a book, similar to the famous European historian Mr. Thomas Buckle in his book History of Civilization of Europe. They writeThat the Arabs have advanced astrology to the level of science. This proves the existence of stars and constellations. But the number and scope of commentators and astrologers have been proved by their experiments and it has also been written that these constellations bear witness to the rise and fall of the revolution.
ایک کا تعلق ایران سے تھا اور دوسرے کا تعلق ہند سے تھا جس کا نام مانک یا مانکہ تھا۔ بغداد پہنچ کر خلیفہ منصور کے دربار میں حاضر ہوا اور علم نجوم کی ایک کتاب پیش کی۔ جس کا نام ’’سنہ ہند‘‘ تھا۔ اسی طرح خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں المحبطی کتاب کا ترجمہ ہوا اور اسی طرح کتابوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ 1030 ء میں سلطان محمود غزنوی کے عہد میں ابوریحان البیرونی جو اس زمانے کے مشہور سائنسدان و منجموں میں شمار کئے جاتے تھے‘ انہوں نے بھی ایک کتاب تحریر کی‘ اسی طرح یورپ کے مشہور مؤرخ مسٹر تھامس بکل اپنی کتاب ہسٹری آف سیولائیزیشن آف یورپ میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ اہل عرب نے علم الرمل و نجوم کو ترقی دے کر سائنس کے درجہ تک پہنچا دیا ہے۔ اس سے ستاروں اور برجوں کا ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ لیکن تعداد اور دائرہ مفسرین اور عالمان نجوم نے اپنے تجربات سے ثابت کئے ہوئے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ برج انقلاب سے عروج و زوال وغیرہ کی گواہی دیتے ہیں۔
Each tower has a different name. There are different names in different languages such as Burj Hamal, Burj Thaur, Burj Joza, Burj Sartan, Burj Asad, Burj Sanbala, Burj Meezan etc. in Urdu. Remember that the same names are also used in Arabic terms. In English, there are Iris, Taurus, Gemini, Cancer, Leo, etc. Astrologers have also explained the difference in its effectiveness and properties. From which the circumstances and events arising in the life of any human being, even the past, present and future are estimated. For example, the Hartaq tower has been given the status of misfortune. For example, pregnancy, Joza, Asad, Meezan, Qaws, all these fall into the realm of misfortune. While Taurus, Cancer, Virgo, Scorpio, Jedi and Pisces have been given the status of Saadit. Similarly, it should be remembered that the constellations of Joza, Virgo, Sagittarius and Pisces are also remembered by the names of Zojdin.
ہر برج کے علیحدہ علیحدہ نام رکھے گئے ہیں۔ مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں جیسا کہ اردو زبان میں برج حمل‘ برج ثور‘ برج جوزا‘ برج سرطان‘ برج اسد‘ برج سنبلہ‘ برج میزان وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہی نام عربی اصطلاح میں بھی لئے جاتے ہیں۔ جبکہ انگریزی زبان میں ایرس‘ ٹورس‘ جمینی‘ کینسر‘ لیو وغیرہ ہیں۔ عالمان نجوم نے اس کی تاثیر و خاصیت کے فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ جس سے کسی بھی انسان کی زندگی میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات حتیٰ کہ ماضی‘ حال اور مستقبل کے اندازے لگائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہرطاق برج کو نحوست کا درجہ دیا گیا ہے۔ مثلاً حمل‘ جوزا‘ اسد میزان قوس دلو یہ سب نحوست کے دائرے میں آتے ہیں۔ جبکہ برج ثور‘ سرطان‘ سنبلہ‘ عقرب‘ جدی‘ حوت کو سعدیت کا رتبہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح یاد رہے کہ برج جوزا‘ برج سنبلہ‘ برج قوس اور برج حوت کو ذوجدین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
Zujidin means neither Nahs nor Saad. Except for the Sun and the Moon, the other five planets move sometimes straight and sometimes in reverse. These five planets are also known as Khumsa Muthirah. Because the planets have mutual attraction. Whenever one of these five planets moves closer to another planet, the other planet pulls the first planet towards it and that planet moves backwards from it. This straight move is called ‘straight’ and the inverse move is called ‘regression’. Similarly, when we read the horoscope, we say about some people that your planet is in regression, that is, its full power has decreased and their impressions have decreased. Similarly, astrologers According to him, the planets also have friendship and enmity and they also have authority and position.
ذوجدین سے مراد نہ نحس اورنہ سعد۔ سوائے شمس اور قمر کے دیگر پانچ سیارگان کبھی سیدھی اور کبھی الٹی رفتار میں چلتے ہیں۔ ان پانچ سیارگان کو خمسہ متحیرہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چوں کہ سیارگان کی آپس میں باہمی کشش ہے۔ جب بھی ان پانچ سیارگان سے کوئی سیارہ دوسرے سیارے کے قریب جاتا ہے تو دوسرا سیارہ پہلے سیارے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ سیارہ اس سے پیچھے کو ہٹ جاتا ہے۔ اس کی اس سیدھی چال کو حالت ’مستقیم‘ کہا جاتا ہے اور الٹی چال کو ’رجعت‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم جب زائچہ کو پڑھتے ہیں تو بعض لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کا سیارہ رجعت میں ہے‘ یعنی اس کی پوری قوت میں کمی واقع ہو گئی ہے اور ان کے تاثرات میں کمی واقع ہو گئی ہے۔اسی طرح ماہرین نجوم کے نزدیک سیارگان کی دوستی اور دشمنی بھی ہے اور ان میں عہدے داری اور منصب داری بھی پائی جاتی ہے۔
The distance between the planets is also calculated. In addition, astrologers have explained the different shapes of the planets, as well as the signs of the constellations, and the speed of the most essential planets. The changing circumstances in the life of any human being are based on the speed and movement of these planets. The speed of the planets in the constellation is fixed and each planet crosses its destination in a fixed period of time. There are various destinations in the constellations in which the planets travel, of which in number 28 they are remembered by the name of degree in English.
سیارگان کاآپس میں فاصلہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عالمان نجوم نے سیارگان کی مختلف اشکال کو واضح کیا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ بروج کے نشانات کو بھی متعارف کرایا ہے اور سب سے ضروری سیاروں کی رفتار مقرر ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں بدلتے حالات و واقعات انہی سیاروں کی رفتار اور حرکات پر مبنی ہیں۔ بروج میں سیارگان کی حرکت کی رفتار مقرر ہے اور ہر سیارہ اپنی منزل کو مقررہ مدت میں عبور کرتا ہے۔ سیارگان جس بھی بروج میں سفر کرتے ہیں ان میں مختلف منازل ہیں جو تعداد میں 28 میں ان کو انگریزی زبان میں ڈگری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
According to astrology, horoscope is the name of the thing that when a person is born in the world, astrologers write down his horoscope according to his date of birth and time of birth, and the constellation that is known at the time of his birth is called astrology. The constellation is called Janam Lagan. The rest of the constellations are listed in twelve houses, respectively, and according to the date, the planet in which the constellation is located is written in the same constellation. In Hindi it is called ‘Janam Kundli’ and in English it is called Horoscope and Nativity. With the help of this, the artists find out the circumstances and events in the life of the child. The horoscope is that which is written in terms of the glory of the day of birth and the time of that birth, and it is no secret that the Almighty has bestowed upon each one the status of superiority.
ازروئے نجوم زائچہ ولادت اس چیز کا نام ہے کہ دنیا میں جب انسان پیدا ہوتا ہے تو نجومی لوگ اس کی تاریخ ولادت اور وقت پیدائش کے لحاظ سے اس کا زائچہ قلم بند کرتے ہیں اور اس کی پیدائش کے وقت جو بروج معلوم کیا جائے اسے طالع برج یعنی جنم لگن کہتے ہیں ۔ باقی برجوں کو بالترتیب بارہ گھروں میں درج کر کے اس تاریخ کے لحاظ سے جو جو سیارہ جس جس برج میں واقع ہو‘ اسے اسی برج میں لکھ دیاجاتا ہے۔ جسے ہندی میں ’جنم کنڈلی‘ کہا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں ہُوروسکوپ اور نیٹی ویٹی Nativity کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے اہل فن بچے کی زندگی میں آنے والے حالات و واقعات معلوم کرتے ہیں۔ زائچہ وہ ہے جو پیدائش کے دن اور اس پیدائش کے وقت کی شان کے لحاظ سے لکھا جاتا ہے اور یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو ایک پر فضیلت کا درجہ عطا فرمایا ہے۔
Just as the month of Ramadan is considered the best of the months and Friday is considered the best of the days, so the times and the hours are superior to each other. Similarly, it is no secret that the power of any planet is not the same. Because a tower has been declared the owner of 30 degrees. When a planet enters a constellation, it is in a 1 to 6 degree degree like a newborn baby, and in 7 to 12 degrees it is like a teenage child, and at 13 to 23 degrees it is in full force. At 23 to 30 degrees, the power of the planet is like that of an old man, that is, its effects are weakened.
جس طرح مہینوں میں ماہ رمضان المبارک کو افضل مانا گیا ہے اور دنوں میں جمعہ کو احسن سمجھا گیا ہے‘ اسی طرح وقتوں اور ساعتوں کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی کسی سے چھپا نہیں کہ کسی بھی سیارہ کی قوت یکساں نہیں رہتی۔ کیونکہ ایک برج 30 درجہ کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ جب کوئی سیارہ کسی برج میں داخل ہوتا ہے تو ایک سے چھہ درجہ تک اس کی حالت نوزائیدہ بچے جیسی ہوتی ہے اور7 سے 12 درجہ تک مثل نو عمر بچے کی طرح اور 13 تا 23 درجہ تک پوری قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ 23 تا 30 درجہ تک سیارے کی قوت مثل بوڑھے آدمی کی طرح ہوتی ہے یعنی اس کے اثرات کمزور پڑ چکے ہوتے ہیں۔
When one or more planets are traveling in the same constellation, it is imperative to look at the planet that owns the constellation, to see if these planets are friends or enemies of the planet that owns the constellation. If there are friends, then Saad is more. If there are enemies, then the power of influence will decrease. If it is equal, then neither Saad nor Nahs. It is also important to see if the planets are in a regressive or upright position. If they are in the upright position then the power will be considered complete and if they are in regression then half. If a planet sets, it loses its power In the same way, it is good and bad for a few Nahas or Saad planets to come together in one house. For example, the planet Sun is moving in the house. All the planets that accompany this constellation lose their power. The power of only 2 planets remains with the sun. The planet Saturn and the planet Venus belong to no one else. Astrology is a vast body of knowledge through which one can easily calculate about human life and read about the changing circumstances and events that revolve around it. But the condition is that this knowledge should be understood in the true sense and through it one can lead one’s life on the right path.
جب ایک یا زیادہ سیارگان ایک ہی برج میں سفر کر رہے ہوں تو وہاں یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ اس برج کے مالک سیارے کو دیکھیں کہ یہ سیارگان اس برج کے مالک سیارے کے دوست ہیں یا دشمن۔ اگر دوست ہیں تو سعد زیادہ‘ اگر دشمن ہیں تو قوت تاثیر میں کمی واقع ہو گی۔ اگر مساوی ہو تو نہ سعد نہ نحس۔ یہ بھی دیکھنا لازمی ہے کہ آیا سیارگان رجعت میں ہیں یا مستقیم حالت میں۔ اگر مستقیم حالت میں ہیں تو طاقت مکمل مانی جائے گی اور اگر رجعت میں تو نصف۔ اگر کوئی سیارہ غروب ہو تو اس کی طاقت ہی ختم ہوتی ہے اسی طرح چند ایک نحس یا سعد سیارگان کا ایک گھر میں اکٹھے ہونا اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ مثال کے طور پر سیارہ شمس جس گھر میں حرکت کر رہا ہو۔ اس برج میں جتنے بھی سیارگان ہمراہ ہوں ان کی قوت ختم ہوتی ہے۔ صرف 2 سیارگان کی قوت شمس کے ہمراہ قائم رہتی ہے۔ سیارہ زحل اور سیارہ زہرہ دیگر کسی کی نہیں۔
علم نجوم ایک وسیع علم ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی کے بارے میں بآسانی حساب لگایا جا سکتا ہے اور اس کے گرد گھومتے بدلتے حالات و واقعات کو بآسانی پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس علم کو صحیح معنوں میں سمجھا جائے اور اس کے ذریعے اپنی زندگی کو صحیح راہ پر چلایا جا سکے۔